حسن گلاب جیسا ،چودھویں کے چاند جیسی جوانی اسکی
یہی میرے محبوب کا پتہ ہے یہی ہے نشانی اسکی
غضب اسکی آنکھیں ہیں قیامت اسکی ادائیں ہیں
اور تسکین روح کے لئے ہے باتوں میں روانی اسکی
روپ اس روح پرور کا ستاروں میں ہے مشہو ر
اور فلک ہر شب کرتا ہے بیاں کہانی اسکی
دل چاہتا ہے اکثر کسی روز چوم لیں جا کر
وہ سجدے کی جگہ کیطرح پاک پیشانی اسکی
آخر کیوں برا منائیں کیوں سر پکڑ کر بیٹھ جائیں
بات بات پہ روٹھنا تو عادت ہے پرانی اسکی
وہ گلبدن،وہ شیریں سخن،وہ گلاب چمن،جان من
خدا کی خدا ہی جانے صورتیں بنانی اسکی
ہمارے لبوں پر نہ سجی ہسی تو کیا ہوا امتیاز
ہم دیکھ کر ہی جی لیتے ہیں شادمانی اسکی