غم ِ دلگی سے پہلے ہمیں کوئی غم کہاں تھے
اس زندگی میں ورنہ یہ رنج والم کہاں تھے
سر ِ بازار میری اُلفت کا تماشا بنا دیا تو نے
خریدار ِوفا تو آئے سبھی مگر تم کہاں تھے
تِشنہ دل نے اگر چاہیں کچھ وضاحتیں تم سے
یہ تو تجدید ِمحبت تھی میرے وہم کہاں تھے
میرے جذبوں کی تشریح میں کچھ سقم تھا شائد
ورنہ میرے معانی ِاُلفت ایسے بھی مبہم کہاں تھے
خطا ِ وفا ہوئی تھی سرزد ، سزاوار تو تھا ہی
ملی جن کی سزا مجھ کو وہ میرے جرم کہاں تھے
میرے لفظوں کی حدت کا گلہ تو بہت کرتے ہیں
پہلے تو اُن کے بھی یہ اندازِ تکلم کہاں تھے
میں شِکستہ کھڑا ہوں تو اپنوں کی وجہ سے
رقیبوں میں میرے ورنہ اتنے دم خم کہاں تھے
تو نے محسوس کیا ہوتا تو نہ یہ معجزے ہوتے
ورنہ زمانے میں ازیں پتھر کے صنم کہاں تھے
ہوتا جو یقیں مجھ کو کہ اِرادہ بانپ لینگے وہ
ایسے بھی مہرباں ہم پہ وہ اہلِ ستم کہاں تھے
بدگمانی نے فاصلوں کے فیصلے سنا دیئے مگر
چشمِ نم تو تھے وہ، کسی بات پہ نادم کہاں تھے
زندگی کی پُرخار مسافت سے بدن چُور تو تھا ہی
میری روح پہ مگر اتنے گہرے زخم کہاں تھے
اظہارِ محبت میں زرا تاخیر تو ہوئی تھی مجھ سے
میرے منظور ِنظر ایسے بھی لاعلم کہاں تھے
رستے بدل ہی جاتے ہیں جب منزل ایک نہیں رہتی
عقیدوں کی لڑائی تھی سوچ کے تصادم کہاں تھے
لہروں کو اپنی کشتی سے کچھ خاص رقابت تھی
اتنی آسانی سے ڈوبنے والے رضا ہم کہاں تھے