غم کا دیپک تیری یادوں سے جلا رکھا ہے
خشک آنکھوں میں تیرا درد بسا رکھا ہے
تیرے جلووں کی تڑپ میں جو مچل اٹھتا تھا
میں نے اس دل کو اندھیروں میں چھپا رکھا ہے
وقت رخصت میری پلکوں سے جو بہہ نکلے تھے
دل میں ان اشکوں سے گلزار سجا رکھا ہے
مجھ کو اپنی ہی خبر ہے نہ زمانے کا پتا
تیری فرقت میں ہر اک شے کو بھلا رکھا ہے
تم گر آؤ تو تمہیں زحمت دستک بھی نہ ہو
دل کے دروازے کو برسوں سے کھلا رکھا ہے
وہ شب و روز جو گزرے تھے تیری قربت میں
زرین نے ان لمحوں شعروں میں سجا رکھا ہے