غم کی سیاہ رات نے گُمنام کر دیا
قدرت کے واقعات نے گُمنام کر دیا
اس دل کی آرزو کو سہارا نہیں ملا
ہم کو ہماری ذات نے گُمنام کر دیا
اس دامنِ حیات میں جو بھی موجود تھا
بس جادہ حیات گُمنام کر دیا
ہر صاحب نظر کی بصیرت کو بھا گئے
چھوٹی سے ایک بات نے گُمنام کر دیا
کچھ اس ادا سے چھلکا ہے یہ جام زندگی
تشہیر سے حالات نے گُمنام کر دیا
تحفے میںچاند کیسے انہیں پیش میں کروں
ایسے تصورات نے گُمنام کر دیا
ضیغم کا نام شعر و سخن سے بھی دیکھئے
بحر و تخیلات نے گُمنام کر دیا