دل لگا کر کسی بیگانے سے
ہو گئے دُور وہ دیوانے سے
اجنبی جن کو لگا محفل میں
لوگ وہ بھی تو تھے انجانے میں
دیکھئے آکے چمن میں پل بھر
کھلتے ہیں پھول تیرے آنے سے
کیا ہے اس دل کا بہل جائے گا
تیرے ہنسنے ہنسانے سے
دوستوں سے میں یہی کہتا ہوں
دوستی بڑھتی ہے بڑھانے سے
گزرا لمحہ تو نہیں ،آ نہ سکوں
پاس تیرے، تیرے بلوانے سے
بِنا تیرے میں پگھل جاؤں گی
شمع یہ کہتی تھی پروانے سے
دکھ ہے بھر آج ملایا اس نے
ہاتھ پہنے ہوئے دستانے سے
پاس جب آیا میرے جانِ بہار
ایک خوشبو اٹھی کاشانے سے
ہے خبر کس لیے ہر بار مجھے
تھی مشکل خواب کے بتلانے سے
کوئی اور بھی ہے پس منظر میں؟
کون چھپ سکتا ہے زمانے سے
وہ جو نکلے گا کہاں جائے گا
اپنی اس زیست کے افسانے سے
اک خوشی تو ہے مجھے بھی پرویز
وہ بہل جاتا ہے بہلانے سے