فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
آنکھ کا دھوکا کہوں اس کو کہ سائے کا وجود
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھوسکتا نہ تھا
خود چڑھا رکھے تھے تن پر اجنبئت کے غلاف
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی پھرتا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرلب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
اب سوائے بھول جانے کے کوئی چارہ نہ تھا