مجھ سے مل کر وہ بھی شاید بدگماں ہو جائے گا
" میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا "
بس مجھے خاموش رہنے دو یہی بہتر بھی ہے
بات جو نکلی تو پھر سب کچھ بیاں ہوجائے گا
تم سے ملنے کا کوئی بھی اب ارادہ ہے نہیں
سلسلہ پھر منقطع یہ میری جاں ہو جائے گا
آج مجھ کو ہے گماں لازم وہ آئیں گے یہاں
جو نہ ہونا تھا کبھی وہ بھی یہاں ہو جائے گا
ساری یادوں کو ڈبو ڈالے گا یوں شب بھر میں وہ
آنکھ سے میری اگر دریا رواں ہو جائے گا
آج ان کے آنے پر یہ عین ممکن ہے کہ اب
درد جو دل میں تھا پنہاں اب عیاں ہو جائے گا
کیوں تو لکھتا ہے اب ارشیؔ باتیں ساری سچ یہیں
پھر مخالف اب ترے سارا جہاں ہو جائے گا