فلک پہ جتنے چمکتے ہوۓ ستارے ہیں
وہ تیری میری محبت کے استعارے ہیں
ہمہی کو کھلتی تھی اپنی ہی خود فرا موشی
تمہاری یاد میں ایسے بھی دِن گذارے ہیں
اُلجھ گیۓ کبھی حالات کے تقاضوں سے
غمِ حیات کے گیسو کبھی سنوارے ہیں
اندھیری رات میں رستہ ہمیں دکھایںٔ گے
یہ اشک اشک نہیں، آسماں کے تارے ہیں
تمہارا مجھ سے سرِ راہ یوں ہی مِل جانا
سمجھ بھی جاؤ کہ قُدرت کے یہ اِشارے ہیں
چلیں گے ساتھ مگر مِل نہ پایںٔ گے عذراؔ
کہ ہم اور آپ تو دریا کے دو کنارے ہیں