خود کو تو فریب داستان کر یا مجھ کو شادمان کر
اب تیرے زیردست ہیں آباد کریا مجھ کوویران کر
آ بیٹھےتیری کشتی میں واپسی کی راہیں بُھلا کر
لےچل ساحل کی طرف ناخدا یا سپُردِ طوفان کر
نفسِ بے اختیار کی طرح اس سفرپراختیار نہیں
سانس میں سما کرمجھ کومُعطرکر یا سفربےخُمارکر
بنا جانے تجھ کو ہم کُھونٹے سے تیرے بندھے
اب اپنی صبح شام میرے نام کر یا مجھ کو بےدام کر
ہوے رخصت دعاؤں کے حصارتیرے نام جُڑ کر
اب تو قابلِ احترام کرمجھ کو یا پھر بے مقام کر