قافلہ موجِ یقیں کا جب رواں ہو جائے گا
پھر سلامت کشتیوں کا بادباں ہو جائے گا
ان کی چاہت میں بہایا رات دن اے دوستو
کیا خبر تھی خون دل کا رائیگاں ہو جائے گا
درد کا سورج چھپے گا بادلوں کی اوڑ میں
زندگی کا راستہ اب مہرباں ہو جائے گا
میرے ہاتھوں کی لکیروں کو کوئی سمجھا نہیں
کیسے کہدوں وہ بھی میرا رازداں ہوجائے گا
دیکھتے ہی دیکھتے لو پھر دسمبر آگیا
پھر نیا اک زندگی کا امتحاں ہو جائے گا
آج کھولا ہے یہاں پر جگنوؤں نے راستہ
خوب روشن تیرگی کا یہ سماں ہو جائے گا
کیا حقیقت ہے یہاں پر مفلس و نادار کی
وشمہ تیرا بھی عقیدہ اب عیاں ہو جائے گا