قافلہ موجِ یقیں کا جب رواں ہو جائے گا
پھر سلامت کشتیوں کا بادباں ہو جائے گا
پاؤں کا ذرہ زمیں کا آسماں ہو جائے گا
"میرا ہر فقرہ مُکمل داستاں ہو جائے گا"
درد کا سورج چھپے گا بادلوں کی اوڑھ میں
زندگی کا راستہ اب مہرباں ہو جائے گا
میرے ہاتھوں کی لکیروں کو کوئی سمجھا نہیں
کیسے کہدوں وہ بھی میرا رازداں ہو جائے گا
دیکھتے ہی دیکھتے لو پھر دسمبر آ گیا
پھر نیا اک زندگی کا امتحاں ہو جائے گا
آج کھولا ہے یہاں پر جگنوؤں نے راستہ
خوب روشن تیرگی کا یہ سماں ہو جائے گا
کیا حقیقت ہے یہاں پر مفلس و نادار کی
وشمہ تیرا بھی عقیدہ اب عیاں ہو جائے گا