قبول ہے مجھے کوئی عذاب مل جائے
خدا کرے تجھے تیرا مزاج مل جائے
ہمیں پت جھڑ بھی راس آجائے گی
اگر اُسے سرسبز باغ مل جائے
کل ایک خواب جو گذر گیا بھلادیا
میں چاہتا ہوں مجھے آج مل جائے
راہوں میں کانٹے سمجھوں گا دستور
بس میری جستجو کو سُراغ مل جائے
ابکہ ترش لگتا ہے ایمان بھی اپنا
میری نیت کو کوئی اعراف مل جائے
اس امید پہ جی رہے ہیں سنتوشؔ کہ
جینے لیئے بھی کوئی مُراد مل جائے