ترے بغیر یہ زندگی کو بھول گئے
قدم قدم پہ تری خوشی کو بھول گئے
بھلا سکوں گا نہ غم مے کدے میں بھی جا کر
تو سوچتا ہوں کہ پھر بے خودی کو بھول گئے
یہ پھول ڈالی سے ٹوٹا تھا آج وقت سحر
ہوئی ہے شام تو اب تازگی کو بھول گئے
ہوئے ہیں عشق میں برباد کتنے ہی عاشق
یہ جانتے بھی ہوئی عاشقی کو بھول گئے
وہ بدگماں کہیں نالاں نہ مجھ سے ہو جائے
ہے اس سے آج نئی دل لگی کو بھول گئے
اندھیرے جن کے ہیں ذہنوں میں خاک دیکھیں گے
کریں تو ان کے لیے روشنی کو بھول گئے
رہے جو تیرا عدو تیرا پیار پا کر بھی
تو ایسے شخص سے ہو دوستی کو بھول گئے