قربت کے خریدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
Poet: اےبی شہزاد By: اےبی شہزاد, Mailsiقربت کے خریدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب رونقِ بازار پہ بھی ٹیکس لگے گا
درویش کے دربار پہ بھی ٹیکس لگے گا
استاد کی گفتار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب عشق کے بیمار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب ملنے کے اصرار پہ بھی ٹیکس لگے گا
مالوف کے دیدار پہ بھی ٹیکس لگے گا
انسان کے کردار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اب سوچ کے محبوب سے ملنے ذرا جانا
کہتے ہیں کہ انکار پہ بھی ٹیکس لگے گا
ویران ہو جائے گا گلشن بھی ہمارا
ہر پھول چمن خار پہ بھی ٹیکس لگے گا
بھر جائے گا ممکن ہے حکومت کا خزانہ
حسنِ گلِ گلزار پہ بھی ٹیکس لگے گا
محبوب کو جی بھر کے ذرا دیکھ لو اب تم
اب تل لب و رخسار پہ بھی ٹیکس لگے گا
سگریٹ پہ پہلے ہی حکومت نے لگایا
امکان ہے نسوار پہ بھی ٹیکس لگے گا
شاعر جو بنے پھرتے ہیں مشہور سخنور
اب غزلوں کی بھر مار پہ بھی ٹیکس لگے گا
اظہارِ محبت ذرا اب سوچ کے کرنا
اب پیار کے اظہار پہ بھی ٹیکس لگے گا
لکھتے ہیں سخنور بنا کر زلف کی توقیر
اب زلفوں کی ہر تار پہ بھی ٹیکس لگے گا
شہزاد حکومت کے مخالف لکھو گے کچھ
پھر دیکھنا اشعار پہ بھی ٹیکس لگے گا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






