سکوتِ شامِ خزاں ہے قریب آجاؤ
بڑا اُداس سماں ہے قریب آجاؤ
نہ تم کو خود پہ بھروسہ نہ ہم کو زعمِ وفا
نہ اعتبارِ جہاں ہے قریب آجاؤ
رہِ طلب میں کسی کو کسی کا دھیان نہیں
ہجومِ ہم سفراں ہے قریب آجاؤ
جو دشتِ عشق میں بچھڑے وہ عمر بھر نہ ملے
یہاں دُھواں ہی دُھواں ہے قریب آجاؤ
یہ آندھیاں ہیں تو شہرِ وفا کی خیر نہیں
زمانہ خاک فشاں ہے قریب آجاؤ
فقیہہ شہر کی مجلس نہیں دُور رہو
یہ بزمِ پیر مغاں ہے قریب آجاؤ
فراز دُور کے سُورج غروب سمجھے گئے
یہ دَورِ کم نظراں ہے قریب آجاؤ