مجھ کو یہ معتبر نہیں لگتا
قصہ یہ مختصر نہیں لگتا
خوف آتا ہے اب تو لوگوں سے
اب درندوں سے ڈر نہیں لگتا
جان اپنی پھنسی مصیبت میں
یاں کوئی چارہ گر نہیں لگتا
خوف آتا ہے قبر سے مجھ کو
موت سے مجھ کو ڈر نہیں لگتا
جذبہ ہم میں ہو آگے بڑھنے کا
رستہ پھر پر خطر نہیں لگتا
تم ہواؤں کی بات کرتے ہو
ہم کو طوفاں سے ڈر نہیں لگتا
عشق کرتے ہو کیوں کسی سے تم
تم کو مرنے سے ڈر نہیں لگتا
لوگ کہتے ہیں پر نہیں لگتا
مکھڑا ان کا قمر نہیں لگتا
یہ تو کوئی خبر نہیں لایا
یہ کوئی نامہ بر نہیں لگتا
اک پرندہ نظر نہیں آیا
شہر میں ہے شجر نہیں لگتا
اپنے سجدوں میں کھوٹ ہے جن کے
ان کو شر بھی شر نہیں لگتا
میرے گاؤں کو جو جاتا تھا
مجھ کو یہ وہ ڈگر نہیں لگتا
جو فرشتہ بنا ہوا ہے یہاں
اس کا سجدے میں سر نہیں لگتا
زہر اتنا ہے اب تو انساں میں
مجھ کو سانپوں سے ڈر نہیں لگتا
شہر یہ معتبر نہیں لگتا
کیوں کے کوئی شجر نہیں لگتا
جس کا سایہ پڑوس تک جائے
ایسا کیوں اب شجر نہیں لگتا
پھول رکھے ہیں جو کتابوں میں
ان کا کوئی اثر نہیں لگتا
جس میں ماں باپ کی محبت تھی
گھر یہ اب وہ مگر نہیں لگتا
نام لکھتے ہو جا بجا میرا
تم کو دنیا سے ڈر نہیں لگتا
آج آئی ہے جو یہ کالی گھٹا
تم کو ان کا سِحر نہیں لگتا؟
جن کی مائیں حیات ہیں یارو
ان کے بچوں کو ڈر نہیں لگتا
کیوں یہ اچھا امر نہیں لگتا
اس کو کرنے میں ڈر نہیں لگتا
کتنی مشکل سے ہم ملیں ہیں یہاں
تم کو کیا یہ اجر نہیں لگتا
تم نے مانگا ہے غیر لوگوں سے
مجھ کو یہ فخر نہیں لگتا
آستینوں میں میری پلتے ہیں
مجھ کو سانپوں سے ڈر نہیں لگتا
بستی میں آگ لگ گئی ہو گی
مجھ کو یہ ابر نہیں لگتا
کوئی مجبوری ڈس رہی ہوگی
مجھ کو یہ بازی گر نہیں لگتا
بھوک اس نے چھپائی اپنی ہے
سچ یہ اس کا ہنر نہیں لگتا