قلندر کی نظر ہو تو در و دیوار چلتے ہیں
انہیں کے در کو ہم جیسے کئ بیمار چلتے ہیں
نہیں خوابوں کی دنیا یہ ہے میخانہ فقیروں کا
خدا سے روز ملنے کو یہاں بیدار چلتے ہیں
بھلا تپتے انگاروں پر یہاں اب کون چلتا ہے
یہ دعوی تو سبھی کا ہے کہ لینے پیار چلتے ہیں
یہی تو سوچ کر جاناں میں تم سے دور رہتا ہوں
کہیں تم یہ نہ کہہ دو کہ سمندر پار چلتے ہیں
وہ اک دن ڈھونڈ لیتے ہیں محبت کی منازل کو
شہر والوں سے جو ہو کر کبھی سنگسار چلتے ہیں
میں حیراں ہوں کہ میرے تو نہیں احباب اتنے پر
پھر اتنے کیوں مرے اطراف میں غمخوار چلتے ہیں
بھلا اس جھوٹ کی دنیا سے باقرؔ ہم کو کیا لینا
چلو کچھ دن ٹھہرنے ہم دیارِ یار چلتے ہیں