دل ہی والا کچھ اس کو جانے ہے
قہر تیرا عطا سے بہتر ہے
کوئ بتلاؤ ان حسینوں. میں
کون اس بے وفا سے بہتر ہے
کب کسی عشق کے فسانے کی
انتہا ابتدا سے بہتر ہے
اے میرے چارہ ساز رہنے دے
یہ مرض تو شفا سے بہتر ہے
کیا کوئ نقش ہول دل جانا
آپ کے نقش پا سے بہتر ہے
آپ اتنا تو جانتے ہونگے
لطف جورو جفا سے بہتر ہے
دشمی بد سہی مگر یہشے
بے رخی کی سزl سے بہتر ہے
دیکھ وہ ایک سادہ پیراہن
کتنے رنگین قبا سے بہتر ہے
صاف انکار اے وفا دشمن
اس فریب ادا سے بہتر ہے
لاؤ جابر وہ شے جو دنیا میں
اس دل مبتلا سے بہتر ہے