سوچا نا تھا کبھی یہ بہاروں کا رازداں ہے
اک برگ نو شجر پہ محبت کا ترجماں ہے
الزامِ بے وفائی تو صدیوں پہ ہے محیط
اورواقعہ وفا کا تھا بس ایک رات کا
یادوں سے میں لپٹ کر روئی ہوں اس قدر
اشکوں سے بن گیا ہے نقشہ حیات کا
پل بھر میں اٹھا لائی ہیں یادوں کی یہ پریاں
لاہور سے دلی کا ارادہ ہی کیا تھا