اشک سب سے چھپاتے رہے
دریا درد کے بہاتے رہے
بھرم انا کا بنا رہے
بزم میں بس مسکراتے رہے
دیے تھے زحم جس ظالم نے
روداد غم اسی کو سناتے رہے
تپش عشق کیا معلوم تجھے
بس جلتے رہے جلاتے رہے
مسیحا کوی مل جاے کہیں
ہم صدائیں یہی لگاتے رہے
ٹوٹنے لگے آس کے تارے سبھی
جھوٹی آشا سے جی بہلاتے رہے
کاش کوئ سمجھا دے انھیں
جہاں انھی کے لیے ہم بساتے رہے
تیر جگر کے پار لگا اب کے
نشانہ ستمگر بناتے رہے
آج کی شب ہے بھاری بہت
لگی آگ چار سو بجاھاتے رہے
وفاؤں کا حاصل ملا کیا ہمیں
تسلیاں دے کے خود کو سمجھاتے رہے
آفتاب نو لاے گا اجالا نیا
اندھیروں میں جگنو جلاتے رہے
قسم سے مرے ہیں کئ بار ہم
کھا کھا کے قسمیں بتاتے رہے
لفظ نہیں یہ لہو ہے میرا
یقیں بےوفا کو دلاتے رہے
بھیک میں ہی وفا دے دو ہمیں
تار تار دامن پھیلاتے رہے
بجلیاں نہ گرنے پائیں کہیں
آشیا اپنا بچاتے رہے
کرم کر دے مولا اب تو
گر کے سجدے میں گڑگڑاتے رہے