بچھڑ کر ایک دوسرے سے
کبھی مضطرب تھے گھر گئے
کوئی یاد بھی نہیں اب کیوں
شاہد کہ زخم ہیں بھر گئے
ٹھنڈی ٹھنڈی رات اور
رات ہے طو یل سی
ان گنت الفاظ میں
بات ہے قلیل سی
بے سبب دل میں ہیں
جو دل سے گئے نہیں
دل میں گھر کر گئے
آنسو جو بہے نہیں
کیوں ملے ہم بے سبب
چاہ نہیں تھا یہ اب
کچھ بس نہیں ہے دل کا
کون اس میں آئے کب
ہم تم اس لفٹ میں
اجنبی سے گزر گئے
کچھ غرض نہیں اس سے
کہاں تھے کنولؔ کدھر گئے