دعا دے نہ مجھ کو تو لمبی عمر کی
بساط کیا ہے اس درد کے سفر کی
تارے خوب چمکے تھے ہجر کی شب کو
حالت زار نہ پوچھ وصل کے قمر کی
مرگیا، جی گیا، کوئی ٹوٹ کر گر گیا
لذت کتنی ہے اخبار کے خبر کی
میں محتاط بہت تھا عدو کے بیچ
اور خطائیں سناؤں کیا دوستوں کے اثر کی
محبت کے سفر میں واپسی نہیں امیل
قیمت چکا نہ پاؤ گے اس ثمر کی