لمحہ
Poet: palak gopalganjvi By: عمران نظیر , gopalganj, biharمیں جاتی ہوں، میں جاتی ہوں
میں جاکے کبهی نہ آتی ہوں
مجهے ہنس کے دیکهو یا نفرت سے
یا آنسو سے مجهے تم نہلادو
آئوں گی نہ میں پهر ہوکے جدا
تم افسوس میں دریا بہوا دو
تم جانو مجهے یا نہ جانو
تم مانو مجهے یا نہ مانو
میں دید ہوں تیری چهن بهرکی
پہچانوں مجهے تم پہچانو
آئ ہوں میں چهن بهر کیلئے
پر یاد بہر دے جائوں گی
جاتے ہوئے تیرے دامن میں
اک داغ سفر دے جائوں گی
پگهلو گے ساون بن بن کر
ایسی میں زہر دے جائوں گی
دیکهو نہ مجهے میں کیسی ہوں
سوچو نہ مجهے میں کیسی ہوں
میں جاتی ہوں، میں جاتی ہوں
میں جا کے کبهی نہ آتی ہوں
افسوس ہے میرے بعد تجهے
کچھ کهونے کا کچھ پانے کا
جو ہونا تها سو ہو گیا
اب وقت نہیں پچهتانے کا
اٹهو اور میرے ساته چلو
ہاتهوں میں ملاکے ہاته چلو
پاجائو فہم سنگ دید میری
اور ساری دنیا لانگه چلو
پہچانو مجهے انسان بنو
انسان بنو وہ شان بنو
جس کی قیمت ہو نہ ممکن
تم چندا کے سمان بنو
دیکهو! میں اک لمحہ ہوں
میں لمحہ ہوں تیرے پل کے
جیسے ندیا میں لہر اٹهے
ویسے میری قیمت جلکے.
پلک گوپالگنجوی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






