لوگ کہتے ھیں رب نے بنایا اس کو فرصت میں
Poet: اے ایس عارف By: اے ایس عارف, Mississaugaایک سپنے جیسی بات تھی اسکی میری صحبت میں
آنکھ ملانا مشکل تھا اک دوجے کی مروت میں
وہ کیسے انجان بنے وعدہ کر کے بھول گئے
ھم نے کیسے چھوڑ دیا اپنی ھی شرافت میں
انمول کہہ کر چھپاتے ھیں اپنے دل کی دولت کو
ایک غر یب کا گھر بس جائے اتنی سی قیمت میں
پاس بٹھایا دور بٹھایا نظروں سے کئی بار گرایا
کیا کیا منزل ھم نے دیکھی اپنی اس محبت میں
فخر سے کرتے رھتے ھیں چاند ستاروں سے باتیں
گواھ بنا کر بیٹھیں گے انہیں کو ان کی خلو ت میں
تجھ سے فرصت کہاں ملی کہ اپنے رب کو یاد کریں
بہت کوسیں گے تجھ کو اپنی آخری منزل تربت میں
تیری بے اعتنائی لے کر خود کی اپنی ھائے لے کر
پہلو میں تیر ے روئیں گے آخری لمہوں کی فرصت میں
ھو گا قابل ستائش ضرور ھو گا اس کے اپنے لئے
لوگ کہتے ھیں رب نے بنایا اس کو فرصت میں
اپنو ں کو نالاں کر کے دیس سے اپنے دور ھو ئے
دیکھیں گے اور کیا لکھا ھے اپنی بکھر ی قسمت میں
عارف خدا کے واسطے جو بیت گیا سو بیت گیا
شاید ھمارا نام لکھا ھو دنیا کی اور کسی نعمت میں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






