ایک سپنے جیسی بات تھی اسکی میری صحبت میں
آنکھ ملانا مشکل تھا اک دوجے کی مروت میں
وہ کیسے انجان بنے وعدہ کر کے بھول گئے
ھم نے کیسے چھوڑ دیا اپنی ھی شرافت میں
انمول کہہ کر چھپاتے ھیں اپنے دل کی دولت کو
ایک غر یب کا گھر بس جائے اتنی سی قیمت میں
پاس بٹھایا دور بٹھایا نظروں سے کئی بار گرایا
کیا کیا منزل ھم نے دیکھی اپنی اس محبت میں
فخر سے کرتے رھتے ھیں چاند ستاروں سے باتیں
گواھ بنا کر بیٹھیں گے انہیں کو ان کی خلو ت میں
تجھ سے فرصت کہاں ملی کہ اپنے رب کو یاد کریں
بہت کوسیں گے تجھ کو اپنی آخری منزل تربت میں
تیری بے اعتنائی لے کر خود کی اپنی ھائے لے کر
پہلو میں تیر ے روئیں گے آخری لمہوں کی فرصت میں
ھو گا قابل ستائش ضرور ھو گا اس کے اپنے لئے
لوگ کہتے ھیں رب نے بنایا اس کو فرصت میں
اپنو ں کو نالاں کر کے دیس سے اپنے دور ھو ئے
دیکھیں گے اور کیا لکھا ھے اپنی بکھر ی قسمت میں
عارف خدا کے واسطے جو بیت گیا سو بیت گیا
شاید ھمارا نام لکھا ھو دنیا کی اور کسی نعمت میں