لوگ کہتے ہیں آرزو کو حسرت مت بناؤ
میں نے کہا عادت کو فطرت مت بناؤ
کوئی سوال ہو نہ ہو الجھن تو بڑی ہے
خواہشوں کو بھی اپنی حسب ضرورت مت بناؤ
رونقوں کے راستے سے کتراکے گذرو اکثر
چاہتوں کی خود پہ حکومت مت بناؤ
ترش ہیں حالات تو تعمیر کرنا سیکھ لو
اپنے ہی اعتراف کو عقوبت مت بناؤ
مانا کہ سکھ کی تمنا دکھ دے جاتی ہیں مگر
اس حال کو بھی اتنا بدصوُرت مت بناؤ
زمانے کو بے اعتمادی نے بدظن کردیا سنتوشؔ
محبت کو اس طرح خرید و فروخت مت بناؤ