پھول کھلتے تھے جس میں لاکھوں آرزوؤں کے
جس کے دامن میں بسیرا تھا حسن زندگی کا
جسکے اشجار بتاتے ہیں گئے وقت کے راز
جسکے اطراف سے آتی ہے فیض کی آواز
جس میں آتی تھی نظر رونق تمنائی
جس نے دیکھی ہے حسینوں کی حسن آرائی
جس کے سبزے پہ پڑا کرتے تھے اس شوخ کے پیر
جس میں ہوتی تھی شب و روز دھڑکنوں کی سیر
جسکو دیکھا جو کبھی ۔ آئینے نظر آئے
جس کے جلووں میں کئی گھونسلے نظر آئے
جس میں سجتی تھی کبھی بزم شناسائی کی
جس میں گزری ہیں کئی ساعتیں تنہائی کی
عہد و پیمان کی باتیں تو کبھی علم کی بات
وہ جسکے کونوں میں بکھری ہے یاد کی بارت
اب وہاں ٹرمینل تعمیر ہوا چاہتا ہے
زہر بھی حسن کی تعبیر ہوا چاہتا ہے
عہد ماضی کے دھندلکوں کو کون دیکھے گا
یاد کے ان حسیں محلوں کا کون سوچے گا
جس میں مہکار پھرا کرتی تھی خراماں قدم
سنا ہے اب وہاں ڈیزل کا دھواں پھیلے گا
لو گارڈن،لاجیا،باغ محبت۔۔۔یہ سب نام ہیں جی سی یو لاہور کے ایک خوبصورت حصے کے جس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کی کروڑوں یادیں وابستہ ہیں ۔ اور جس میں فیض ۔ راشد ۔ تبسم۔اشفاق احمد ۔ بانو قدسیہ اور بے شمار مشاہیر کا عکس اب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔حال ہی میں گورنمنٹ نے اسے ختم کر کے وہاں میٹرو بس ٹرمینل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔۔۔۔۔۔