ان کھلے گلابوں کی
کونپلوں سی ہوتی ہے
ہر سمے بدلتے ہوئے
موسموں سی ہوتی ہے
پل میں جاگ اٹھتی ہے
پل میں سو بھی جاتی ہے
قطرہ قطرہ بہتی ہے
اور کھو بھی جاتی ہے
بے بسی سی اک اس میں
آنسوؤں سی ہوتی ہے
رات کی سیاہی میں
نور بن کے آتی ہے
روح کے جزیروں کو
آ کے یہ سجاتی ہے
روشنی مگر اس کی
جگنوؤں سی ہوتی ہے
دو گھڑی کی محفل میں
جھومتی ہے گاتی ہے
دے کے درد صدیوں کے
پل میں لوٹ جاتی ہے
کاغذی گلابوں کی
خوشبوؤں سی ہوتی ہے
تھوڑا دور چلتی ہے
اور تھک سا جاتی ہے
اک ذرا سی آہٹ پر
سہم سہم جاتی ہے
لڑکیوں کی چاہت بھی
لڑکیوں سی ہوتی ہے