لکھے ہوئے گیت غزل ہر بار تڑپتے ہیں
انہیں خطوں میں میرے اظہار تڑپتے ہیں
کپکپاتی انگلیوں میں قلم بہک جاتی ہے
وہ فکر تشویش کہ خود قلمکار تڑپتے ہیں
جگتے ہے ستاروں کے سنگ دیئے رات بھر
ان سنسان مکانوں میں انتظار تڑپتے ہیں
تیری الجھنوں میں جو سو نہ سکا اک پل
اُسی شخص کے دیکھو انتشار تڑپتے ہیں
آج تو وہ تنہائی پاکر تنہا بیٹھ گیا
جہاں عاشق اور منتظری وہاں دیدار تڑپتے ہیں
کوئی نہ جان سکا محبت کی گہرائیاں سنتوشؔ
ہم بے ترس لوگوں لیئے بیکار تڑپتے ہیں