پلکوں کی چلمنوں میں چھپایا ہے تیرا نام
دھڑکن میں اسطرح سے بسایا ہے تیرا نام
بیٹھا ہوا ہوں آس میں یادوں کی ریت پر
لکھ لکھ کے کئی بار مٹایا ہے تیرا نام
رکتی ہی نہیں آرزو کی ضو فشانیاں
تاروں کے جھمگٹے سے چرایا ہے تیرا نام
ہر اک فنا کی راہ سے گزرا میں بے دھڑک
کچھ اسطرح سے روح میں سمایا ہے تیرا نام
میں جب کبھی نصیب کے ادراک کو نکلا
ہاتھوں کی لکیروں نے دکھایا ہے تیرا نام
یہ پھول ستارے گھٹا ساون ہوا جگنو
لفظوں کے کنایوں نے بتایا ہے تیرا نام
اے رشک ناز اب ذرا اٹھکیلیاں نہ کر
دے کر لہو کو تھپکی سلایا ہے تیرا نام