لگتا ہے مجھے ڈر حالاتوں سے
زمانے سے رسموں سے ذاتوں سے
بجھے رہنے دو چراغ میرے گھرکے
میرا نہیں رشتہ کوئی شب براتوں سے
عاشقِ بدبخت پہ اِک احسان کر
مجھے زہر دے جا اپنے ہاتھوں سے
پوچھ ذرا ستاروں سے میرا حال
میں سویا نہیں ہوں کہی راتوں سے
جب کہتے ہو ، میں مجبور ہوں
ڈر لگتا ہے تری باتوں سے
یہ جو دل تڑپتا ہے سوتا نہیں
روگ لگا یہ اُن سے ملاقاتوں سے
نہالؔ کیا کرنا چاہتے ہو ثابت اب
بے وزن شعروں سے ، غزلاتوں سے