لگی جو آگ تو پھر منشاء نہ ہوئی دوست
ہمیں سزاؤں کے سائے میں رہنے دیجئے
کوئی غم ہے دائم تا ہم کیا کریں، یہ ناقص زخم مرہم کیا کریں
ہیں دکھ کے تماچے تو پرواہ نہیں ، جو دے رہا ہے اسے دینے دیجئے
شباہت دیکھی تو مدت لیئے بیٹھے، آوارہ موسم کی طلب لیئے بیٹھے
وقت نے آکر قدامت پہ چھوڑا ، گذرا پل اسے گذرنے دیجئے
حسرتوں کے گھوڑے بے لغام رہے، نفس کی تحرک پہ قیام رہے
حالات کے تذکرے ہیں ہوش کرو، گر معمول کی باتیں تو جانے دیجئے
سب کو اختیار ہے کہ بے خود رہو، بے خودی بھی اتنی کہ دلشاد رہو
اس تنہائی نے خرید لیا مجھکو، آنکھیں بھر آئی تھوڑا رونے دیجئے
کوئی ملا ہی نہیں تو بچھڑا کون؟، تم بے رخ نکلے تو اجڑا کون؟
خدا سے ہم نے تو زندگی مانگی تھی ، مل گیا موت اب تو مرنے دیجئے