وہ سامنے بھی آتی ہے
لیکن خاموش رہتی ہے
کچھ کہنا بھی چاہتی ہے
لیکن خاموش رہتی ہے
اس کے معصوم سے چہرے پر
درد کا انبھار سا ہوتا ہے
بانٹنا بھی چاہتی ہے
لیکن خاموش رہتی ہے
جو کبھی مسکراتی ہے
تیتلیوں سی کھلھلاتی ہے
اک پل میں جانے کیوں
پھر وہ سہم جاتی ہے
لیکن خاموش رہتی ہے
چاند کو پکڑنا چاہتی ہے
پنکھ بھی پھڑپھڑاتی ہے
اڑنے سے بھی گھبراتی ہے
لیکن خاموش رہتی ہے