مالکِ قسمت اُس سے دُھوری ترا فیصلہ نا منظور
سفرِ عشق میں بچھڑنا ضروری ترا فیصلہ نا منظور
دعاؤں کی ڈور سے باندھ کے لایا ہوں پاس اپنے
اتنے قریب سے توٹے ڈوری ترا فیصلہ نا منظور
عدالتِ عشق میں وکلا لاؤنگا میں وفاؤں کے
وصالِ جاناں کو نامنظوری ترا فیصلہ نا منظور
دل پہ پتھر رکھ کے میں نے کیا صبر ہے کہی سال
بے بسی اب کوئی مجبوری ترا فیصلہ نا منظور
پھر سے 12 سال غلامی پھر سے ٹھوکریں پھر سے ہار
جناب! خدمت کی یہ مزدوری ترا فیصلہ نا منظور
میں نے عمر گزاری تری چوکھٹ پہ بے بسی و مفلسی میں
تری مجھ پہ یوں بے غوری ترا فیصلہ نا منظور