سجدے کیلئے کھڑا ہوں مگر سجدے پہ دل نہیں
آج سجدے پہ نہیں شاید دل جھکانے کی طلب ہے
مجھے تیرا بنا دے اک ایسے سجدے کی طلب ہے
جو بہے آبشار بن کے, ایسی آنکھ کی طلب ہے
جو مدہوش کر جائے,ایسی خوشبو کی طلب ہے
فنا ہونا ہے ایسے کہ یہ روح کی طلب ہے
سیکھنا ہے وہ رقص کسی ایسے کی طلب ہے
جو لے جائے ہاتھ پکڑ کے اس ہاتھ کی طلب ہے
کہتے ہو عشق ہوگیا ہے, جانتے ہو کیا
عشق عبادت ہے اور عبادت کو شکر کی طلب ہے
خود کو ستم رسیدہ کہو گے تو ظلم کرو گے
کیونکہ قسمت جو لکھتا ہے, تمھیں اس کی طلب ہے
یہ کوئی نہیں جانتا یہ کیسی طلب ہے