مانتا ہی نہیں دل یہ نادان تو ہے
زندگی کا ہر لمحہ یوں پریشان تو ہے
گردش چکر کو اب باطل کرنا ہے
شروع سے ہی بغاوتی انسان تو ہے
کیوں اوروں کے مزاج ٹھکانہ لگتے ہیں
اپنی بھی دل کا خالی مکان تو ہے
حسرتوں کو ضرورت پڑی تو دیکھیں گے
ابکہ ہجر میں ٹھہرا ہوا اطمینان تو ہے
اور عبادت گاہیں ہم کہاں ڈھونڈیں
اپنی جاءِ پناہ اپنا ایمان تو ہے
گرد کی کون سے زنجیر توڑیں سنتوشؔ
زندگی ساری بھی ایک زندان تو ہے