وہ ایک نام کہ
جس نام پہ
قربان
خدائی ساری
وہ ایک ذات کہ
جس ذات پہ
نثار
محبت ساری
جس نے کئے عمر بھر
روشن چراغ
چاہے ہو
گھنیر اندھیرا
مگر پھر بھی
اس نے
کیئے بنا پرواہ
ہر طوفان سے بچایا
ہر اندھیرے کو مٹایا
دکھ کی رات میں
سکھ کا بادل ہے
آپ اپنا مٹا کر
آپ اپنا بنایا ہے
اس کی محبت
کی
یقین دھانی نہین ضروری
اس کی شان کی قسم
کھا ئی خدا نے
کہ اس پر
کبھی نھہیں ہوسکی غالب
غرض
کہ اس نے کیا
نچھاور
ٹہنی کو
سبزہ
اور کیا
درخت تناور
اور اب جب کہ
وقت ہے اس کو
دینے کا آرام
تو تمام لوگ
ہیں مشغول
اپنی اپنی
فکروں میں
اے کاش
اس کا حق
کوئی ادا کر سکتا
گر ہو سکتا
تو
کیہوں کر کہلاتی
یہ
ماں۔۔۔۔۔