مجھکو مرِی نگاہ ہی بدنام کر گئی
کمبخت اسکے چہرے پہ جا کر ٹہر گئی
صحرا نوردِ عشق کی اٹکھیلیاں نہ پوچھ
اُسکی تو ساری عمر اسی میں گزر گئی
مانا کہ کچھ طو یل تھا یادوں کا سلسلہ
سپنوں کے پنکھ توڑ کر نیندیا کدھر گئی
فیضِ حکا یتِ دلِ صد چا ک دیکھیے
ذکرِ جفائے یار کی قسمت سنور گئی
چاہا کہ دوستوں میں کروں دوست کی تلاش
مایوس ہو کے لو ٹی جدھر بھی نظر گئی
بے وجہ بے سبب تو نہیں قدِ خم مرِا
میں جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی
اب کس کا انتظار ہے اے زند گی تجھے
کس کو تلاش کرنے پرانے شہر گئی
نوٹ: ایک مصرع کسی اور شاعر کی غزل سے ماخوز ہے