حسن کو عشق پر یقیں نہیں ہے
خواب تعبیر کے قریں نہیں ہے
گر ترے دل کی دھڑکنوں میں نہیں
پھر مرا نام تو کہیں نہیں ہے
یعنی سجدے تمام ہیں بےسود
گر کوئی داغ برجبیں نہیں ہے
اے مقدر ! مجھے تو موقع دے
تیرے قبضے میں وہ حسیں نہیں ہے
وہ ملے اور مل کے جا بھی چکے
مجھے آنکھوں پہ کیوں یقیں نہیں ہے
کیا وہ خلوت پسند ہے نوشین
یا جہاں میں ہوں بس وہیں نہیں ہے؟