مجھے ستونوں کے سہارے کی حاجب پڑ گئی ہے
یہی جنوں فطرت پھر سے عادت بن گئی ہے
خودمختاریاں تو اکثر زیادتی کرتی ہیں لیکن
زیبائشی یہ آمیز ہو جانے کی خاصیت بن گئی ہے
کون کہتا ہے ہمارے خام و خیال میں دہشت نہیں
کیا کریں دلگیر کاہلی بھی جیسے ریاضت بن گئی ہے
مشکوک مزاج ہمیں ضربیں دیتے رہے ہیں
بیہوشی میں سب سہنے کی عادت بن گئی ہے
قبل از وقت ملال تقاضائیں بھی ہیں دوست
مدت سے غم کی قید میں رہنا معاونت بن گئی ہے
رنگین دنیا میں اگر رنگساز رہے بھی تو کیا
مگر ہر رنگیں آرزو ابکہ عبادت بن گئی ہے