کبھی جن سے بھری تھیں آرزو کی جھولیاں ہمدم
ابھی تک دل میں جاری ہیں وہی اٹھکیلیاں ہمدم
کہیں وہ دور بادل سے نئی کرنوں نے جھانکا ہے
جبھی گزرا ہے پلکوں پر ابھی تیرا گماں ہمدم
گئے کل کے جھروکوں سے مجھے آواز تو دینا
بڑی مدت ہوئی دیکھا نہیں میں نے جہاں ہمدم
اناؤں کی وہ بازی تھی نہ تو ہاری نہ میں ہارا
مگر اک ہار کا منظر ہے اپنے درمیاں ہمدم
ہوا چھو کر تیری زلفیں گلے سے جن کے ملتی تھی
ابھی تک ان درختوں پر وہی ہیں ٹہنیاں ہمدم
مجھے سونے نہیں دیتے تمہاری یاد کے جگنو
تمہیں بھی چھیڑتی ہونگی خلش کی تتلیاں ہمدم
تمہاری مسکراہٹ پر اساس زندگی رکھ کر
شہر میں ڈھونڈتا پھرتا رہا اپنا نشاں ہمدم
تھکی ناؤ ہے گردابی ہے لیکن دل یہ کہتا ہے
کسی امید پہ اب کھول ڈالوں بادباں ہمدم
اگر بھولے سے آ جاؤ تو کلیاں مسکرا اٹھیں
تمہاری دید کو ترسا ہوا ہے گلستاں ہمدم