وہ جب سے مجھ سے جدا ہو گیا ہے
میرا دل بھی مجھ سے خفا ہو گیا ہے
عجب وسوسے دل میں آنے لگے ہیں
خطا کیا ہوئی کیا گناہ ہو گیا ہے
کوئی تو اٹھاؤ پکارو جگاؤ
ارے جاگنے والا ہی سو گیا ہے
دعاؤں میں تاثیر کیوں نہ رہی
ہمارا مقدر کہاں سو گیا ہے
بنا عشق جینا بھی جینا ہے یارو
یہ جیون تو جیسے سزا ہو گیا ہے
جو اپنے لئے بھی کبھی جی نہ پایا
وہی آج تم پہ فدا ہو گیا ہے
بقائے دوام حیات مسلسل
اسی جستجو میں فنا ہو گیا ہے
کسی مہرباں کی نظر کا کرم
بیمار مرگ کی دوا ہو گیا ہے
وہ میری لحد پہ بہت رو گیا ہے
محبت کا وعدہ وفا ہو گیا ہے