مجھ سے میرے ہی عکس نے الٹا سوال کر دیا
دستِ جفائے وقت نے کیا تیرا حال کر دیا
تجھ سے بچھڑ کے بے وفا بس یہی اک ملال ہے
چھوٹی سی ایک بات نے جینا محال کر دیا
چاہا تو اسنے تھا بہت لیکن نہ گنگنا سکا
جادو غزل کے بول تھے ہونٹوں کو لال کر د یا
شعر و سخن کے روپ میں میرا کمال دیکھیے
اُس حسنِ لا زوال کو ا پنی مثال کر دیا
مانا کہ عرضِ حال کو اپنی زباں نہ کھل سکی
لیکن تڑپ تڑپ کے تو دل نے کمال کر د یا
جوشِ جنوں کے فیض کا حسنِ اعجاز دیکھیے
شامِ فراقِ یار کو صبحِ وصال کر دیا
سر کو جھکا رکھا ہے کیوں تو نے زمیں کے پاؤں پہ
کس غم نے آسماں تجھے ا تنا نڈھال کر دیا
ملنی تو تھی سزا تجھے انور جی عمر قید کی
اُس نے گھٹا کے اب اِسے پانچ سو سال کر دیا