مجھ پہ اترے جو صحیفے ہیں صبا دیتی ہے
اس کی یادوں کے سبھی باب لکھا دیتی ہے
میری سانسوں سے مہکتی ہیں وفا کی کلیاں
میری آنکھوں سے محبت کودکھا دیتی ہے
مہر و انجم ہوں یا ہو چاند یہ آنگن میں مرے
میرے افکار کی راہوں سے ہٹا دیتی ہے
درد کے ڈھیر میں کچھ بھی نہ بچے گا لیکن
اپنا یہ ساتھ محبت کا نبھا دیتی ہے
ایسے بے جان کھلاڑی سے ہمیں کیا لینا
جس کے اندر سے فقط آگ جلا دیتی ہے
آج اخلاص و وفا کی تو یہاں قدر نہیں
مال و دولت کے سبھی باب سجا دیتی ہے
جن کو انداز محبت تھے سکھائے وشمہ
وہ تو خطروں کو مری جان ملا دیتی ہے