مجھ کو قرطاس پہ رنگوں سے سجایا جائے
میری تصویر کو ہاتھوں سے بنایا جائے
اتنی ندرت ہے کہ جو دیکھے وہی فخر کرے
اتنا خوش رنگ یہ آنکھوں میں سمایا جائے
اس قدر کرب کا سایہ ہے محبت کا سفر
غمِ دنیا میں تو اشکوں سے جلایا جائے
وقت کی دھار پہ ہر وقت بدلتا دیکھوں
میری تقدیر کو یہ کیسا بنایا جائے
مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے گر کر
اپنے ہاتھوں سے اگر مجھ کو لگایا جائے
میرے محبوب کبھی آؤ ذرا رات ڈھلے
کیسے جلتا ہے مرے دل کو جلایا جائے
خون آنکھوں سے جو بہتا ہے وہ ہے دل کا مرے
کتنی ہجرت کی ہے دل سوز سزا دیکھایا جائے
گل کے موسم کی ہواؤں سے گذارش ہے مری
مری حالت نہ بکھرجائے لگایا جائے
صبح کی آنکھ سے نکلا ہے سمندر کیسے
میرے احساس پہ برسی جو گھٹا یا جائے
شمع جلتی ہے کسی اور کے غم میں لیکن
اس کے پہلو میں ہزاروں کو اٹھایا جائے
پھول خوشبو کے یہ چہرے پہ سجا لو وشمہ
مری آنکھوں کی تمنا کو ہے بھایا جائے