مجھ کو کھاۓ جاتا ہے انتظار لوگوں کا
جانے مجھ سے ہے کیونکر اتنا پیار لوگوں کا
جو ملا مجھے آخر بےوفا وہی نکلا
اب بھلا کروں کیسے اعتبار لوگوں کا
روز خط محبت کے کیوں مجھی کو ملتے ہیں
میں بنوں بھلا کیسے بار بار لوگوں کا
دیکھو میری ہمت تو اپنے چھوٹے سے دل میں
درد لے کے پھرتا ہوں میں ہزار لوگوں کا
اس کی سنگدلی کو بھی داد دینی ہو گی کہ
قتل کر کے وہ خوش ہے چار چار لوگوں کا
میں جو ایک ہوں باقرؔ یار بھی تو اک ہو بس
ایک میں بنوں کیسے بےشمار لوگوں کا