محبتوں میں بندھے قَول ٹوٹ جانے سے
یقیں پلٹتا نہیں ، جا کے لَوٹ آنے سے
ھنسی تِری تو ، باعث تھی فصلِ گل کی مگر
خزاں بھی دور نہیں ، نین بھیگ جانےسے
کبھی تو ایسا بھی تھا جانِ انجمن گویا
گمان تیرا ہوا ہم کو بہار آنے سے
امید بندھ گئی تِرے آشفتہ سر کی جلووں سے
اور آس ٹوٹ گئی ، تیرے بام پر نہ آنے سے
ضیائے شوق کسی طَور کم ہوئی نہ کبھی
لَو اور دینے لگی ، تیرے بے رخی دکھانے سے
کسے خبر تھی کہ ہم چھوڑے جاتے ہیں دنیا
شہر میں عام ہوئی ، تیرے بام و در سجانے سے
ترا دیوانہ بھی ، ناحق تھا باعثِ شورش
فضا بحال ہوئی اسے بزم سے اٹھانے سے