یہ کاغذی توت کے شجر ہیں
کہ دل کشا ہے نہ جن کا منظر
نہ جن کا سایہ ہے روح پرور
جو بدنما ہیں، جو بےثمر ہیں!
اگائے تھے پچھلے موسموں میں
جو ہم نے، تم نے
تو اب میرے شہر، شہرِ یاراں کو
ان کا جنگل نگل رہا ہے
روش روش وہ گلاب و سرو و سمن کا منظر
بدل رہا ہے
مری زمیں بانجھ ہو رہی ہے
کہ شہر جنگل میں ڈھل رہا ہے!
عجیب موسم، عجب فضا ہے
کہ شہر ویران، بَن ہرا ہے،
خزاں گزیدہ،
اداس چہروں پہ اک حرفِ التجا ہے
یہ دعا ہے کہ ربِ کون مکاں
پھر ایک حرفِ 'کُن' سے
جگا دے اس غمکدے کی قسمت
مرے قبیلے کو پھرکوئی مردِ حُر عطا کر
وہ میرا عقبہ، وہ ابنِ نافع
یہ قیرواں، منتظر ہے جس کا
جو میرے جنگل کو گھر بنادے
محبتوں کا نگر بنادے۔۔