پلک جھپکنے کی دیر ہوتی ہے
بچھڑنے میں کہاں تاخیر ہوتی ہے
اک پل میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں
جن کے ہاتھوں دل کی ڈوڑ ہوتی ہے
جانے کس مٹی سے خدا نے بنایا ہے دل
ٹوٹ کر بھی محبت کی بھرمار ہوتی ہے
نا شکوہ نا ہی شکایت لاتے ہیں لب پر
پھر بھی کانٹوں کی برسات ہوتی ہے
لاکھ بار منہ پھیر کر کھڑے ہو جاو تم
نظر پھر بھی تیری طلب گار رہتی ہے
محبت نام لو تو دل کو تسکین ہوتی ہے
خالی ہاتھ دیکھو تو ارمانوں کی راکھ ہوتی ہے
ہاں بچھڑنے میں کہاں تاخیر ہوتی ہے
محبت تو ستم کی جان من جاگیر ہوتی ہے