محبت تو ھے پر یقین کیسے دوں
جس کی دھڑکن تم وہ دل کیسے چیر لوں
ڈر تو غیروں کی بے یقینی سے لگا رہا
تیرے اس احسان کو کس وفا کا نام دوں
تیرے اعتبار سے ہی یہ دل امر تھا
آج چشم نم سے امیدوں کو غُسل دوں
زنداں میں پھینک گئے یقین مانگ کر
بتلاؤ ذرا ! کس بے وفا کو صدا دوں
جس کی بنیاد میں یقین ھے نایاب
میم اس رشتے کو جلا کیسے دوں