محبت میں شکایت ہے شکایت میں محبت ہے
نہیں جو رنگ لاتی یہ ایسی عبادت ہے
بڑی دلکش اداؤں سے ہمیں برباد کرتے ہیں
اسی معصوم عادت میں بڑی اعلی سیاست ہے
حکومت گو محبت کی دل کے جہاں پر ہے
ہزاروں آرزوؤں کی مگر پھر بھی بغاوت ہے
غموں کی دھوپ میں کملا گئیں گل پوش یادیں بھی
ملا داغِ خزاں ہم کو بہاروں کی شرارت ہے
تغافل جان کر ان کا سمجھ آگیا ہم کو
متاعِ غم لٹاتے ہیں یہی اُن کی سخاوت ہے